How to Buy Your First Telescope - An Expert Opinion By Dr. Ahmed Naeem
Share
کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایک رات اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں آسمان تلے بیٹھے ہوں اور آسمان کی جانب دیکھ کر سیارہ مشتری یا زحل کی
نشاندہی کر کے سب کو حیران کر دیں یا آپ کا بچہ اسکول میں سب سے نمایاں ہو کیونکہ اس نے اپنی ٹیلی اسکوپ سے چاند کے گڑھے (Craters) اور زحل کے حلقے (Rings) اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہوں؟
اگر آپ اپنے اردگرد کے لوگوں میں زیادہ "اسمارٹ" لگنا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں اور طلبہ میں جدید سائنس (STEM Education) کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو یقیناً آپ کو ایک ٹیلی اسکوپ ضرور لینی چاہیے۔
اب سوال آتا ہے کہ کون سی ٹیلی اسکوپ آپ کے لیے بہتر رہے گی اور اس کا جواب جاننے کے لئے مختصر انداز میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹیلی اسکوپ ہوتی کیا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟
ٹیلی اسکوپ دراصل وہ آلہ ہے جو بہت زیادہ فاصلے پر موجود اجسام کو بڑا اور واضح کر کے دکھاتا ہے۔
عام طور پر اس کی تین بنیادی اقسام ہوتی ہے۔ پہلی قسم ریفریکٹر کہلاتی ہے جو عدسوں پر مبنی ہوتی ہے اور عمل انعطاف (Refraction) کے ذریعے عکس بناتی ہے۔ یہ وہی قسم ہے جس سے مشہور سائنسدان گلیلیو نے پہلی بار آسمان کو دیکھا تھا۔ ریفریکٹر ٹیلی اسکوپ چاند اور سیاروں کے مشاہدے کے لیے بہترین رہتی ہے کیونکہ یہ بہت تفصیل کے ساتھ اجرا فلکی کے سطح دکھا سکتی ہیں۔ البتہ ان میں رنگوں کے بگاڑ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جسے کرومیٹک ابیریشن (Chromatic Aberration) کہا جاتا ہے اور اسی کو کم کرنے کے لیے آج کل ملٹی کوٹیڈ، ایکرومیٹک یا ایپوکرومیٹک نامی عدسے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی ٹیلی اسکوپ کی قیمت قدرے زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کا استعمال اور ہینڈلنگ نسبتاً آسان ہوتی ہے۔
دوسری قسم ریفلیکٹر ہے جو آئینوں پر مبنی ہوتی ہے اور روشنی کے انعکاس کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اس کی ایجاد سر آئزک نیوٹن نے اس وقت کی جب عدسوں سے بنی ٹیلی اسکوپس میں نقائص پائے گئے۔ ریفلیکٹر ٹیلی اسکوپس نسبتاً کم قیمت میں بڑے سائز میں دستیاب ہوتی ہیں اور اسی لیے کہکشاؤں، نیبولا اور دیگر مدھم اجرام یعنی ڈیپ اسپیس کے مشاہدے کے لیے مناسب سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں رنگوں کا بگاڑ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن ان کا استعمال کچھ توجہ مانگتا ہے کیونکہ ان کی ترتیب یعنی کالیمیشن وقتاً فوقتاً درست کرنا پڑ سکتی ہے۔
تیسری قسم کیٹا ڈائی اوپٹرک کہلاتی ہے جو عدسوں اور آئینوں دونوں کا امتزاج ہوتی ہے۔ یہ کمپاؤنڈ ٹیلی اسکوپ کہلاتی ہے اور عام طور پر ہر قسم کے مشاہدے کے لیے بہترین “آل راؤنڈر” سمجھی ہے۔ شمد کیسگرین اس کی سب سے مشہور قسم ہے جو ڈیپ اسپیس اور سیاروں دونوں کے لیے کارآمد ہے جبکہ ماکسوٹوو کیسگرین خاص طور پر چاند اور سیاروں کے لیے بے مثال سمجھی جاتی ہے۔
ٹیلی اسکوپ کا سب سے اہم پہلو اس کے عدسے یا آئینے کا قطر ہوتا ہے جسے اپرچر کہا جاتا ہے۔ جتنا بڑا عدسہ یا آئینہ ہوگا اتنی زیادہ روشنی جمع ہوگی اور عکس زیادہ واضح نظر آئے گا۔ دوسری اہم چیز فوکل لینتھ ہے جس سے کسی جسم کو بڑا کر کے دکھانے کی طاقت یا میگنیفیکیشن طے ہوتی ہے۔ ایک آسان سا اصول یہ ہے کہ ٹیلی اسکوپ اپنے قطر (ملی میٹر میں) کے دوگنا سے زیادہ مفید میگنیفیکیشن نہیں دے سکتی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس 130 ملی میٹر قطر کی ٹیلی اسکوپ ہے تو 260 گنا سے زیادہ بڑھا کر دیکھنے کی کوشش بے فائدہ رہے گی کیونکہ تصویر دھندلا جائے گی۔
ٹیلی اسکوپ کے ساتھ اس کا ماؤنٹ بھی نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آسان زبان میں یہ وہ اسٹینڈ ہے جس پر ٹیلی اسکوپ نصب ہوتی ہے۔ آلٹ ازیمتھ ماؤنٹ کی ایک قسم ہے جو استعمال میں نسبتاً آسان ہے مگر ایکویٹوریئل ماؤنٹ زیادہ درست ٹریکنگ دیتا ہے لیکن اس کا استعمال تھوڑا پیچیدہ ہوتا ہے۔ اگر بجٹ اجازت دے تو آٹومیٹک یا کمپیوٹرائزڈ ماؤنٹ بہترین رہتا ہے کیونکہ یہ خود بخود اجرامِ فلکی کو تلاش کر لیتا اور ان کو آٹومیٹک ٹریک بھی کرتا ہے۔
آخر میں ایک اہم نقطہ یہ کہ اگر آپ پاکستان میں ٹیلی اسکوپ خریدنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ ہمیشہ کسی مستند یا آفیشل ڈیلر سے خریداری کریں۔ اس طرح آپ کو بعد از خریداری کسٹمر سپورٹ، رہنمائی اور کسی خرابی کی صورت میں وارنٹی کلیم کی سہولت مل جاتی ہے۔
ٹیلی اسکوپ صرف ایک آلہ نہیں بلکہ ایک ایسا دریچہ ہے جو آپ کو زمین پر بیٹھے بیٹھے کائنات کی حیران کن دنیا سے جوڑ دیتا ہے۔ ایک بار جب آپ اس دریچے سے جھانک لیتے ہیں تو آپ کی سوچ میں ایسی وسعت آ جاتی ہے کہ پھر زمین کے مناظر بھی معمولی لگنے لگتے ہیں۔
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)